اس سورہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ کے آخری دور میں نازل ہوئی جب قریش آپ کو قتل کرنے یا جلاوطن کرنے یا قید کرنے کے سوال پر غور کر رہے تھے۔ اس وقت بعض کافروں نے یہ سوال (شاید یہودیوں کے اکسانے پر) اس کا امتحان لینے کے لیے کیا: "بنی اسرائیل مصر کیوں گئے؟" یہ سوال اس لیے کیا گیا کہ وہ جانتے تھے کہ ان کا قصہ عربوں کو معلوم نہیں تھا کیونکہ ان کی روایات میں اس کا کوئی ذکر نہیں تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے کبھی اس کا حوالہ بھی نہیں دیا تھا۔ اس لیے انہیں توقع تھی کہ وہ اس سوال کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے گا یا پہلے اس سے بچ جائے گا اور بعد میں کسی یہودی سے اس کے متعلق دریافت کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح وہ بالکل بے نقاب ہو جائے گا۔ لیکن ان کی توقع کے برعکس ان پر میزیں الٹ دی گئیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کا سارا قصہ اس وقت اور وہیں بیان کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے موقع پر ہی اسے سنایا۔ اس نے قریش کو ایک بہت ہی عجیب و غریب حالت میں ڈال دیا کیونکہ اس نے نہ صرف ان کی تدبیر کو ناکام بنا دیا بلکہ اس کو ان کے معاملے میں مناسب طریقے سے لاگو کر کے ان کے لیے تنبیہ بھی کی، گویا یہ کہنے لگے کہ جیسے تم اس نبی کے ساتھ برتاؤ کر رہے ہو، بالکل اسی طرح۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو تم بھی اسی انجام کو پہنچو گے۔
0 Comments
Share your thoughts about lyricdaddda.com with the community: